پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا غیر مسلموں سے حسن سلوک
مدینہ منورہ میں بدر کے اسیرانِ جنگ مختلف صحابہ کے گھروں میں رکھے گئے تھے اور شفیق عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تھا کہ جو کوئی اپنے قیدی کو بلا فدیہ آزاد کرنا چاہے وہ ہر طرح سے اس کا مجاز ہے۔ چنانچہ ایک قریشی قیدی مطلب بن حرث مخزومی انصار کے قبیلہ بنو خزرج کی حراست میں تھا۔ انہوں نے اس کو فدیہ لیے بغیر چھوڑ دیا اور وہ مکہ معظمہ پہنچ گیا۔ ایک قیدی صیفی بن ابورفاعہ مخزومی تھا جب مکہ معظمہ سے کوئی شخص اس کا فدیہ لے کر نہ آیا تو اس نے وعدہ کیا کہ اگر مجھے چھوڑ دو تو میں مکہ پہنچ کر خود اپنا فدیہ بھیج دوں گا۔ چنانچہ صحابہ رضی اللہ عنہ نے اس کو رہا کر دیا لیکن مکہ پہنچ کر اس نے کچھ نہ بھیجا۔
وہب بن عُمَیر کی رہائی
عمر بن وہب جمحی کا بیٹا بھی جس کو وہب بن عمیر کہتے تھے اسیرانِ بدر میں داخل تھا۔ جب غزوئہ بدر کے بعد عمیر رضی اللہ عنہ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کی نیت سے مدینہ منورہ آئے اور آپ کی جاں ستانی کے بجائے خود ہزار جان سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جاں نثار بن گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ ان کے بیٹے کو چھوڑ دو۔ چنانچہ وہب بن عمیر کو بھی رہا کر دیا گیا۔ معاویہ بن مغیرہ اموی (جو خلیفہ عبدالملک بن مروان کا نانا تھا) جنگ بدر میں قید ہوا تھا۔ شفیق عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فدیہ لیے بغیر چھوڑ کر اس پر بھی احسان کیا لیکن یہ احسان فراموش جنگ اُحد میں پھر مسلمانوں کے مقابلے پر آموجود ہوا۔ آخر حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ کی تلوار نے اس کو زندگی کی رسوائی سے نجات بخشی۔ ان کے علاوہ جو جو قیدی مفلس و نادار تھے اور ان کا فدیہ لے کر کوئی نہ آیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سب کو آزاد کر دیا۔ وہ ممنون احسان ہو کر اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دعائیں دیتے ہوئے مکہ واپس گئے۔ (سیرت ابن ہشام)
ابوعَزّہ شاعر کی مخلصی
ان ایام میں مکہ معظمہ کے اندر دو مشہور شاعر تھے۔ ابوعَزّہ عمرو بن عبداللہ جمحی اور مسافح بن عبدمناف بن وہب۔ ابوعَزّہ عمرو بھی غزوئہ بدر میں مسلمانوں کے ہاتھوں اسیر ہوا تھا۔ یہ شخص بڑا مفلوک الحال تھا اور اس کے گھر میں بہت سی جوان بیٹیاں بن بیاہی بیٹھی تھیں۔ قید ہو جانے کے بعد حضور سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض پیرا ہوا، جناب والا! آپ جانتے ہیں کہ میں بڑا محتاج اور کثیر العیال ہوں۔ مجھے چھوڑ کر مجھ پر احسان فرمائیے۔ رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر بھلا کون محسن اور احسان نواز ہو سکتا تھا۔ آپ نے اس کو آزاد کر دیا۔ لیکن یہ اقرار لے لیا کہ آئندہ ہمارے مقابلے میں قریش کی کسی طرح مدد نہیں کروںگا۔ اس نے آپ کی بہت تعریف کی اور دعائیں دیتا ہوا رخصت ہوا (ابن جویر طبری)۔ ابوعَزّہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح میں جو اشعار کہے وہ سیرت ابن ہشام (جلد 2 صفحہ 315) میں درج ہیں۔ لیکن اس کے بعد جنگ اُحد کے موقع پر عبداللہ بن ابی ربیعہ، صفوان بن اُمِیّہ، عکرمہ بن ابوجہل اور قریش کے چند دوسرے سربرآوردہ افراد اس کے پاس پہنچے اور کہنے لگے اے اباعَزّہ! تم بڑے معجز بیان شاعر ہو۔ اپنی قوت گویائی سے ہماری مدد کرو۔ ہمارے ساتھ چل کر لوگوں کے دل گرما دو۔ عمرو جمحی نے جواب دیا کہ میں محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے احسان کے نیچے دبا ہوا ہوں۔ میں محسن کشی نہیں کر سکتا“۔ صفوان بن اُمِیّہ نے کہا اباعِزّہ! ان باتوں کو جانے دو اور ہمارا کہا مانو۔ پہلے ہمارے ساتھ قبائل میں چل کر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف جذبہ نفرت پھلائو۔ پھر لڑائی میں بھی شرکت کرو۔ اگر تم زندہ سلامت لوٹ آئے تو تمہیں اتنا زر و مال دیا جائے گا کہ نہال ہو جائو گے ورنہ تمہاری بیٹیوں کی کفالت ہمارے ذمہ ہو گی۔ عمرو سخت قلاش تھا، ان کے چکمے میں آکر مان گیا۔ اب قریش نے مسافع کو بنو مالک کے پاس اور عمرو جمحی کو بنو کنانہ کے پاس روانہ کیا۔ انہوں نے اپنی آتش بیانی سے قبائل میں آگ لگا دی۔ (تاریخ محمد ابن جریر طبری)۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں